یوں تو پاکستان میں علم فلکیات کے بارے میں عوام اور حکمران دونوں ہی خاموش دکھائی دیتے ہیں لیکن پچھلے چند مہینوں میں کہیں سیاسی مہینوں کے دوران “خلائی مخلوق” کا لفظ استعمال ہوا تو کہیں پاکستان کی طرف سے دو مواصلاتی سیٹیلائٹس چین کی مدد سے خلا میں بھیج دی گئیں۔ اب حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے سامنے جب بھی خلائی مخلوق کا نام لیا جاتا ہے تو بجائے اس کے کہ اسے سائنسی روسے دیکھا جائے، سیاسی طنز سمجھ لیا جاتا ہے۔
نئی حکومت کے آتے ہی ہمیں کئی تازہ خبروں کے ساتھ 20 اکتوبر 2018 کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے یہ بھی سننے کو ملا کہ چین کی مدد سے پاکستان 2022 تک خلا میں اپنا پہلا خلا باز بھیج دے گا۔
یہ خبر آتے ہی سوشل میڈیا پر پھیل گئی اور اس پر بہت سے ماہرین بھی تبصرہ کرتے نظر آئے، اگر ہم اس اعلان کی نوعیت پر غور کریں تو اس بات کا بخوبی علم ہوجائے گا کہ یہ پاکستان میں فلکیاتی پیش رفت ہے، یا سیاسی اعلان؟
ہم جانتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 10 اگست 2018 کو یوم آزادی کے موقع پر اعلان کیا تھا کہ “ہندوستان 2022 تک اپنا پہلا خلا باز خلا میں بھیجے گا”۔
اس بیان کے بعد بھارتی عوام نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا کیونکہ اگر بھارت خلا میں اپنا خلاباز بھیجنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، تو وہ اس خلائی دوڑ میں امریکا، روس اور چین کے بعد دنیا کا چوتھا ملک بن جائے گا۔
یہ تو تھا سیاسی بیان، لیکن کیا واقعی بھارتی خلائی ادارہ، انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن، اس امر میں کوئی اقدامات کررہا ہے؟
تو اس حوالے سے فی الحال یہ خبریں ہیں کہ بھارتی خلائی ادارے کے پاس اس وقت اس قدر جدید ٹیکنالوجی موجود ہے کہ وہ خلاباز کو خلا میں بھیج سکتا ہے، تاہم اس حوالے سے بہت سے تجربات ہونے ابھی باقی ہیں، جس کے بعد ہی بھارتی خلائی ادارے کے لیے کسی انسان کو خلا میں بھیجنے کی راہ ہموار ہوگی۔
بھارتی خلائی ادارے نے ’ہیومن اسپیس فلائٹ پروگرام‘ تشکیل دیا ہے جس کی پہلی خلائی گاڑی ’گگنیان‘ میں 3 بھارتی خلاباز موجود ہوں گے اور انہیں دسمبر 2021 میں زمین کے گرد نچلے مدار میں بھیج دیا جائے گا۔
واضع رہے کہ عالمی خلائی اسٹیشن، ہبل خلائی دوربین اور انسان کی بنائی ہوئی باقی سیٹیلائٹس بھی زمین کے گرد نچلے مدار میں ہی موجود ہیں، ان کا گردشی دورانیہ تقریباً 2 سے 4 گھنٹوں کے بیچ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو اس کا حکومتی نظام 1990ء کے بعد سے کچھ اس طرح کا ہے کہ اگر پاکستان اپنے ہمسایوں خصوصاً بھارت میں کوئی بھی حرکت دیکھتا ہے تو اس کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے اس روایتی حریف سے آگے نکلا جائے، حالیہ بیان بھی اسی پالیسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جیسے ہی بھارت نے 2022ء تک اپنا پہلا خلاباز بھیجنے کی بات کی تو اس کے تقریباً 2 ماہ بعد پاکستان نے بھی اعلان کردیا کہ ہم بھی خلا میں جانے کے لیے تیار ہیں.
بہرحال اب یہ خلائی دوڑ کی شروعات ہوچکی ہے تو یہ بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ کی طرح انتہائی دلچسپ ہوگی۔
اس کے ساتھ ہی اگر پاکستان اور بھارت کے خلائی اداروں کا موازنہ کیا جائے تو ایک عام شہری کے لیے بھی اس بات کا اندازہ لگانا آسان ہوجائے گا کہ اس دوڑ میں پاکستان اور بھارت کہاں کھڑے ہیں۔
پاکستان کا خلائی ادارہ قیام سے اب تک
پاکستانی خلائی ادارہ جس کا مکمل نام ’اسپیس اینڈ اپر اٹموسفئیر ریسرچ کمیشن‘ (اسپارکو) ہے، 16 ستمبر 1961ء میں قائم کیا گیا۔ اس وقت اسپارکو کی سربراہی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کر رہے تھے۔
7 جون 1962ء کو اسپارکو کی جانب سے ایک راکٹ لانچ کا مظاہرہ کیا گیا تھا، اس راکٹ کو ‘راہبر-ون‘ کا نام دیا گیا، لیکن یہ راکٹ کوئی سیٹلائٹ یا خلائی گاڑی اپنے ساتھ نہیں لے کر گیا تھا۔
اسی طرح کے چھوٹے راکٹ لانچ 1972ء تک جاری رہے، یوں لگ رہا تھا، جیسے پاکستان کا یہ نومولود خلائی ادارہ خلا میں جانے کے لیے تیاریاں کر رہا ہے، لیکن 80ء کی دہائی میں پاکستان میں سیاسی نظام میں انتشار کی وجہ سے اسپارکو کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان کی پہلی سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کا منصوبہ 1990 تک ملتوی ہوگیا۔
1990ء میں ملک کے حالات اتنے خراب ہوچکے تھے کہ وہ پاکستان جو 1962ء سے 1972ء تک خود راکٹ لانچ کر رہا تھا، اب اسے اپنی سیٹلائٹ ‘بدر-ون’ کو زمین کے مدار میں پہنچانے کے لیے چین کی مدد لینی پڑی۔
پاکستان کا چین سے مدد لینا بدر-ون کو خلا میں پہنچانے کے لیے تو کارآمد ثابت ہوا، لیکن اس کے اسپارکو پر بہت بُرے اثرات پڑے، جس کے نتیجے میں پاکستان اب تک ‘بدر-بی’ (2001ء میں) ‘پاک سیٹ ون-آر’ (2011ء میں) اور جولائی 2018ء میں اپنی 2 مواصلاتی سیٹلائٹس چین ہی کی مدد سے خلا میں بھیجتا رہا ہے، یعنی پاکستان اب خود سے راکٹ لانچ کرنے کے لیے اقدامات نہیں کر رہا بلکہ اب اس کا سارا دار و مدار چین پر ہے.
بھارت کا خلائی ادارہ قیام سے اب تک
اس کے برعکس اگر بھارتی خلائی ادارے کی بات کی جائے تو یہ ادارہ اسپارکو کے قیام کے تقریباً 8 سال بعد وجود میں آیا تھا، حیران کن بات یہ ہے کہ آج بھارت درجنوں مواصلاتی سیارے اور خلائی رصدگاہیں زمین کے گرد بھیج چکا ہے اور اس کے علاوہ 2008ء میں ‘چاندریان-ون’ نامی خلائی گاڑی چاند کے گرد بھی بھیج چکا ہے۔
اس بھارتی خلائی گاڑی کی ایک دریافت یہ بھی ہے کہ اس نے حال ہی میں چاند کی سطح کے نیچے پانی کی موجودگی ظاہر کی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے 5 نومبر 2013ء کو اپنے ایک مشین ‘منگل یاں-ون’ مریخ کی جانب بھیجی ہے اور یہ پہلی ہی دفعہ میں مریخ کے گرد مدار میں گردش کرنے لگی، یہ بھارتی خلائی ادارے کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی کیونکہ اس سے پہلے امریکا، یورپ اور چین بھی مریخ کی جانب اپنی خلائی گاڑی بھیج چکے ہیں لیکن پہلی دفعہ میں بھارت کے علاوہ کسی کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی، اس کامیابی کے بعد بھارتی خلائی ادارہ دنیا کے کارآمد خلائی اداروں میں سے ایک ہوگیا۔
اگر ہم بھارتی خلائی ادارے کے قیام کے بعد کی بات کریں، تو ایسا نہیں ہے کہ بھارت شروع سے ہی اپنی سرزمین سے خلائی تجربات کررہا ہے، بلکہ بھارت نے صرف 1970ء اور1979ء میں لانچ ہونے والی اپنی پہلی 2 سیٹلائٹس سوویت یونین پروگرام کے ذریعے لانچ کی تھیں، لیکن پاکستان کے برعکس اس نے ہمیشہ ان پر انحصار نہیں کیا بلکہ اسی دوران اپنی ’لانچ فیسلٹی‘ (راکٹ خلا میں بھیجنے کی جگہ) تیار کرلی اور 7 جون 1979ء کو سوویت یونین سے لانچ ہونے والی بھارتی سیٹلائٹ کے تقریباً 3 ماہ بعد ہی اس نے سیٹلائٹ لانچ کرنے کی کوشش کی، جو ناکام رہی لیکن اگلے ہی سال دوبارہ اپنی سرزمین سے سیٹلائٹ لانچ کرکے بھارت خلائی تسخیر کے اس سفر میں خود مختار ہوگیا، جس کے بعد سے اب تک بھارت اپنی ہی سرزمین سے 100 سے زائد سیٹیلائٹس اور خلائی مشن لانچ کرچکا ہے۔
ادارے کے سربراہ
یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ کسی بھی ادارے کے عروج و زوال کا دار و مدار اس کے سربراہان پر ہوتا ہے اور یہ بات دونوں ہمسایوں کے خلائی اداروں پر بالکل ٹھیک ثابت ہوتی ہے کیونکہ اگر اسپارکو کی بات کی جائے تو یہ ادارہ پاکستان کے مشہور سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی سربراہی میں قائم ہوا، چونکہ یہ سائنسی ادارہ کسی سائنسدان کی سربراہی میں کام کر رہا تھا، اس لیے یہ اپنی ابتداء میں متحرک تھا۔
اسی طرح بھارتی خلائی ادارہ بھی ایک سائنسدان ‘وکرم سرا بھائی’ کی سربراہی میں تیزی سے کام کرتا رہا، لیکن بعد میں بھارتی خلائی ادارے کے سربراہان تو سائنسدان ہی رہے لیکن پاکستان کے خلائی ادارے اسپارکو کے سربراہ ہونے کا اعزاز سائنسدانوں کے پاس نہ رہا، یہی وجہ ہے کہ اسپارکو کا آج عالمی سطح پر کوئی نام و نشان ہی نہیں اور نہ ہی پاکستانی عوام کو اس ادارے کے بارے میں کسی قسم کی معلومات ہیں۔
حکومت کی لاپرواہی
ان خلائی اداروں کی بات ہو ہی رہی ہے، تو حکومت کے ان کے بارے میں اقدامات پر بھی نظر دوڑائی جاسکتی ہے۔ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ 1970ء سے 1990ء تک کی سیاسی انتشار کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر منفی اثر ہوا، تو اسی طرح تمام حکومتی ادارے بھی ساتھ ہی خراب ہوئے، لیکن آج اگر اسپارکو کے کسی ممبر سے بات کی جائے تو جواب میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ اسپارکو کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے، جس وجہ سے یہ ادارہ صحیح سے کام نہیں کر پا رہا، سال 19-2018 کے لیے حکومت نے اسپارکو کا بجٹ 4 ارب 70 کروڑ روپے رکھا ہے جو اس کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
اس کے برعکس اگر بھارتی حکومت اور ان کے ادارے کو دیکھا جائے، تو اس نے خلائی ادارے کا سال 19-2018 کا بجٹ تقریباً 190 ارب پاکستانی روپے مقرر کیا ہے۔
پاکستانی ادارے کو اس قدر کم فنڈز کی وجہ حکومتی عہدے پر براجمان کسی سیاستدان سے پوچھی جائے تو جواب میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان میں پانی، خوراک اور باقی مسائل بہت زیادہ ہیں، لہذا یہ خلائی ادارہ اور فلکیاتی تگ و دو حکومتی ترجیحات میں بہت نیچے ہیں۔
اس بات میں یقیناً سچائی موجود ہے لیکن اگر ہم بھارت کو دیکھیں تو وہاں بھی یہی مسائل درپیش ہیں، وہاں بھی بہت سے لوگ خوراک کی قلت کی وجہ سے مرتے ہیں، لیکن پھر بھی بھارت جنوری 2019ء میں اپنی دوسری خلائی گاڑی ’چاندریان – 2‘ چاند کی طرف بھیجنے کے لیے تیار ہے۔
اب اگر ہم بھارت اور پاکستان کے 2022ء تک خلا میں اپنے پہلے خلاباز کو بھیجنے کے بیان پر دوبارہ سے نظر دوڑائیں، تو صاف ظاہر ہے کہ اس خلائی دوڑ میں شاید پڑوسی ملک ہم سے آگے نکل جائے، کیونکہ بھارتی خلائی ادارے نے نہ صرف خلا تک رسائی حاصل کی ہے، بلکہ اپنی قوم کے نوجوانوں میں فلکیاتی تعلیم کو بھی عام کیا ہے تاکہ وہی نوجوان سائنسدان اپنے ملک کے خلائی ادارے میں کام کرسکیں۔
خلائی دوڑ میں مقابلہ کرنے کے لیے جن چیزوں کا ہونا ضروری ہے، وہ اسپارکو کے پاس موجود نہیں، لہذا اسپارکو کو ابھی خود مختار ہونے اور اپنی عوام میں فلکیات کا شوق پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان میں بہت کچھ ایسا ہے، جس سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے، ان میں سرِفہرست صوبہ بلوچستان ہے، جس کو عام طور پر بنجر اور بیکار سمجھا جاتا ہے۔ اس صوبے میں اگر رصدگاہ بنائی جائے تو پاکستان بھی فلکیاتی تحقیقات میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے، اس کے علاوہ شمالی علاقہ جات بھی رات میں فلکیاتی مشاہدوں کے لیے کافی موزوں ہیں۔
یہ مضمون نومبر ٢٠١٨ میں ڈان نیوز کی ویب سائٹ پر شایع ہوچکا ہے۔