سائنسدانوں نے انتہائی کم عرصے میں کورونا جیسے مرض کی ویکسین تیار کرنے سمیت دیگر سائنسی کارنامے سر انجام دیے۔
سال 2021ء سائنسی لحاظ سے بہت اچھا ثابت ہوا، انسانوں نے انتہائی کم عرصے میں کورونا جیسے مرض کی ویکسین تیار کرنے سمیت دیگر سائنسی کارنامے انجام دئیے لیکن ڈگمگاتی معیشت کو سنبھالتا ہمارا ملک پاکستان اس سال بھی سائنسی میدان میں کہیں نظر نہ آیا۔
سائنس اور سائنسی دریافتوں کی اچھی بات یہ ہے کہ یہ کسی ایک ملک یا گروہ کی جاگیر نہیں ہوتیں بلکہ تمام انسانیت کے فائدے کے لیے ہوتی ہیں، تو آئیں دیکھتے ہیں سال 2021ء میں دنیا سائنسی میدان میں کتنا آگے نکلی۔
مصنوعی کافی کی تیاری
فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 30 سے 40 فیصد لوگ روزانہ کافی پیتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ شرح بڑھتی جارہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ کافی کی پیداوار میں اضافہ ضروری ہوگیا ہے لیکن اس میں سب سے بڑی مشکل یہ درپیش ہے کہ کافی کی فصل کی اچھی نشوونما کے لیے بہت زیادہ پانی، کھاد، اور جگہ درکار ہوتی ہے، اس کے علاوہ کٹائی کے بعد فیکٹریاں کو کافی کے بیج نکالنے اور انہیں تیار کرنے کے بعد فیکٹریاں پانی دریاؤں میں پھینک دیتی ہیں جس میں بہت سے زہریلے کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ماحول پر خراب اثرات مرتب ہوتے ہیں مگر اب سائنسدانوں نے لیب میں ‘سیل کلچر‘ کی مدد سے کافی تیار کرنے کا تجربہ کرلیا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ کہ اس تجربے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کافی کی خوشبو اور ذائقہ دونوں اصل کافی کی طرح ہیں، اس تجربے میں کافی کے پودے سے خلیوں کو حاصل کرکے لیب میں ان خلیوں کو تمام اجزا فراہم کیے جاتے ہیں، اس سے خلیوں کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ پودے کا حصہ ہوں اور بدلے میں کافی کے بیج تیار ہوجاتے ہیں۔
کینسر اور ‘ڈی این اے‘ میں تعلق کی وضاحت
ہم جانتے ہیں کہ جاندار چھوٹے خلیوں سے مل کر بنتے ہیں جس کے مرکز میں ڈی این اے موجود ہوتا ہے, یوں سمجھیں کہ ڈی این اے ایک ایسا کیمیائی مادہ ہے جس میں جاندار کے جنسی خد و خال، حرکات اور جسم کی اندرونی بناوٹ کے بارے میں تمام معلومات کیمیائی حالت میں موجود ہوتی ہے۔
ہمیں بچپن سے بایولوجی (حیاتیات) کی کتب میں یہ پڑھایا جاتا رہا ہے کہ اگر سورج کی تیز شعاعوں، ایکس رے وغیرہ کی وجہ سے اس ڈی این اے میں خرابی آجائے (جسے ڈی این اے میں تبدیلی یا ڈی این اے میوٹیشن بھی کہا جاتا ہے) تو خلیے کے نشونما پانے یعنی تقسیم ہونے کے عمل میں تبدیلی آجاتی ہے اور اس کے نتیجے میں کینسر ہوجاتا ہے لیکن کیا واقعی صرف ‘ڈی این اے میوٹیشن‘ ہی کینسر کا باعث ہے؟
ستمبر 2021ء میں ‘انسانی جسم پر رونما ہونے والے تل’ پر ایک تحقیق سامنے آئی، جس میں یہ اشارے ملے ہیں کہ تل بھی ایک طرح کا کینسر ہیں، ہمیں یہ معلوم ہے کہ انسانی جلد پر تل اس وقت بنتے ہیں جب جلد میں سیاہ رنگ پیدا کرنے والے خلیے ڈی این اے میوٹیشن کی وجہ سے تیزی سے تقسیم ہو کر خلیوں کا جھرمٹ بنا لیتے ہیں اور ایسے جھرمٹ کو ہم ‘تل‘ کہتے ہیں۔
تل بھی ایک طرح کے کینسر ہی ہوتے ہیں لیکن یہ زیادہ خطرناک نہیں ہوتے، سیاہ رسولی بھی انہی خلیوں میں ڈی این اے میوٹیشن کی وجہ سے ہوتی ہے تو پھر خلیوں میں ایک طرح کی تبدیلی کی وجہ سے 2 مختلف چیزیں کیسے بن سکتی ہیں؟
دونوں خلیوں کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ سیاہ رسولی جیسا شدید کینسر کرنے میں انہی خلیوں میں موجود ایک پروٹین ATAD2 شامل ہے جو ڈی این اے میوٹیشن کے ساتھ ڈی این اے میں ایسے جین (ڈی این اے کا بنیادی حصے) کو ‘آن‘ کردیتی ہے جس کی وجہ سے خلیے محض معمولی تل بننے کے بجائے جان لیوا رسولی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
حیاتیات سے ٹکر لیتا ‘انزائم‘ دریافت
—فوٹو: تھومس جیفرسن یونیورسٹی
ہم جانتے ہیں کہ جانداروں کے خلیے میں ڈی این اے موجود ہوتا ہے جو خلیے کی نشوونما کے لیے پروٹینز بنانے والے حصے جسے ہم رایبوسوم بھی کہتے ہیں کی طرف ‘کیمیائی خطوط‘ بھیجتا رہتا ہے جن سے پروٹینز بنتی ہیں اور ان ‘خطوط‘ کو بایولوجی کی اصطلاح میں (میسنجر آر این اے )‘ کہتے ہیں۔
ڈی این اے سے میسنجر آر این اے بننے تک کے اس عمل کو ‘ٹرانسکرپشن‘ کہتے ہیں، حیاتیات میں مرکزی اصول موجود ہے، جسے ہم ‘سینٹرل ڈوگما‘ بھی کہتے ہیں، جو ہمیں بتاتا ہے کہ خلیے میں ڈی این اے سے میسنجر آر این اے اور اس سے رایبوسوم کے ذریعے پروٹین بننے تک کا تسلسل قائم رہتا ہے اور اس سے الٹ نہیں ہوسکتا لیکن حال ہی میں سائنسدانوں کی نئی دریافت نے اس اصول سے ٹکر لے لی۔
سائنسدانوں نے انسانی خلیوں میں ایک حیران کردینے والا انزائم ‘پولیمریز تھیٹا‘جون 2021ء میں دریافت کیا، اس انزائم کو انسانی ‘ریورس ٹرانسکرپٹیز‘ بھی کہا جاسکتا ہے، سائنسدان اس دریافت سے اس لیے پریشان ہیں کیونکہ بایولوجی کے بہت سے تصورات و نظریات اسی اصول کی بنیاد پر کھڑے ہیں اور یہ تحقیق اس اصول سے ٹکرا رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی بہت کچھ ایسا ہے جو دریافت ہونے والا ہے۔
انسانی جسم میں مصنوعی طریقے سے انسولین بنانے کا کامیاب تجربہ
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذیابیطس میں مبتلا لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 2019ء کے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 63 کروڑ لوگ ذیابیطس میں مبتلا ہیں جن میں 90 فیصد تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے جسم میں انسولین بنانے والا عضو، یعنی لبلبہ بڑھتی عمر کے ساتھ انسولین بنانے کی رفتار کم کردیتا ہے۔
ذیابیطس کی اس قسم کو ‘ٹائپ 2 ذیابیطس ‘ کہتے ہیں جس کا ذکر کرتے ہوئے عرف عام میں ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ ‘فلاں شخص شوگر کے مرض میں مبتلا ہے‘ ان مریضوں میں انسولین کی درکار مقدار کو قائم رکھنے کے لیے باہر سے انسولین کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔
مگر ذیابیطس کی پہلی قسم ایسی ہے جس میں انسانی جسم کی قوت مدافعت جراثیم سے لڑتے ہوئے جسم میں موجود لبلبے کے خلیوں کو نقصان پہنچا کر ہمیشہ کے لیے ناکارہ کردیتا ہے، یہ ذیابیطس زیادہ تر بچوں میں دیکھی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں انسانی جسم زندگی بھر کے لیے انسولین بنانے کے قابل نہیں رہتا۔
لیکن تسلی رکھیے کیونکہ واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے حیرت انگیز تحقیق جاری کی ہے جس میں انہوں نے ذیابیطس کی پہلی قسم میں مبتلا 63 سالہ مرد کے خون میں سٹم خلیے (خلیوں کی وہ قسم جن سے باہر خلیے وجود میں آتے ہیں) شامل کیے جو کچھ ہی ہفتوں میں ایسے خلیے بناتے ہیں جن کی مدد سے جسم میں انسولین بنانے کی صلاحیت واپس آجاتی ہے، اس طرح کے خلیے انسانی لبلبے میں موجود ہوتے ہیں جنہیں ہم ‘بیٹا خلیے‘ کہتے ہیں۔
ان تجربات کے نتائج خوش آئند تو ہیں لیکن ابھی سائنسدانوں کو مزید کلینیکل تجربات کی ضرورت ہے۔
مریخ پر لاوا کا جما ہوا تالاب دریافت
—فوٹو: ناسا
جولائی 2020ء امریکی خلائی ادارے کی جانب سے مریخ کی طرف بھیجی گئی گاڑی ‘مارس پرزرورانس روور‘ نے حال ہی میں اس سطح کے بارے میں سائنسدانوں کو معلومات دی ہے جس پر پچھلے 8 مہینے سے یہ خلائی گاڑی چکر لگا رہی ہے۔
اس خلائی گاڑی کو مریخ کے مشہور گڑھے ‘جزیرو‘ میں اتارا گیا کیونکہ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ماضی میں اس جگہ پر کبھی پانی بہا ہوگا اور یہ گڑھا دراصل پانی کا تالاب ہوگا لیکن نومبر 2021ء میں اس خلائی گاڑی نے مریخی سطح میں سوراخ کرکے اس بات کا پتا لگایا کہ خلائی گاڑی کسی سمندر کے تلے پر سفر نہیں کررہا بلکہ یہ چٹانیں کھولتے لاوا کے جمنے سے بنی ہیں۔
ان چٹانوں کی مزید جانچ سے سائنسدانوں کو ایسی معدنیات ملی ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان جمے ہوئے لاوا سے بنی چٹانوں پر کبھی پانی بھی بہا ہوگا۔ یقیناً اس خلائی گاڑی کی طرف سے یہ معلومات مریخ کو مزید بہتر جاننے میں مدد فراہم کرے گی۔
ملیریا کی پہلی ویکسین
ویسے تو ملیریا کوئی نئی بیماری نہیں اور کئی سال تک دنیا میں سب سے زیادہ اموات ملیریا کے مرض میں مبتلا افراد کی ہوتی رہیں، صرف براعظم افریقہ میں سالانہ 5 لاکھ لوگ ملیریا کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے ہزاروں دم توڑ جاتے ہیں۔
متاثر ہونے اور مرنے والے افراد میں نصف سے زیادہ تعداد 5 سال سے کم عمر بچوں کی ہوتی ہے مگر اب ملیریا کی ویکسین متعارف کرائے جانے کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ اس مرض پر قابو پالیا جائے گا۔
یوں تو ملیریا سے نمٹنے کے لیے سائنسدان کئی سال سے اس کی ویکسین بنانے میں مصروف تھے مگر سال 2021ء میں عالمی ادارہ صحت نے ملیریا کی پہلی ویکسین عام عوام کو لگانے کی منظوری دی۔
سپر کمپیوٹرز کی مدد سے اینٹی بایوٹکس کی تیاری
—فوٹو: شٹر اسٹاک
ہم جانتے ہیں کہ بہت سے بیکٹیریل انفیکشنز کے لیے ڈاکٹر اینٹی بایوٹک تجویز کرتے ہیں جو جسم میں موجود بیماری پھیلانے والے بیکٹیریاز کو مارکر جسم کے قوت مدافعت کی مدد کرتی ہیں لیکن ارتقائی عمل کے نتیجے میں بیکٹیریاز کا نظام مدافعت کچھ وقت بعد بیکٹیریاز کو اس طرح تبدیل کر لیتا ہے کہ جو اینٹی بایوٹک پہلے اس انفیکشن سے لڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اب کسی کام کا نہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ بیکٹیریاز کا نظام مدافعت اپنے ماحول کی جانچ کرکے اس کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہے اور جسم کو انفیکشن سے بچانے کے لیے ہمیں نئی طرح کی اینٹی بایوٹک درکار ہوگی۔
ایک اندازے کے مطابق اگر نئی اینٹی بائیوٹک بنانے کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو انسانوں کی اوسط عمر 20 سال کم ہوجائے گی۔
اسی لیے سائنسدان لیب میں نئی طرح کی اینٹی بایوٹک بناتے تو ہیں لیکن جس رفتار سے جراثیم طاقتور ہورہے ہیں، اس کے لیے سائنسدانوں نے سپر کمپیوٹرز کا استعمال کرنا شروع کردیا ہے تا کہ جراثیموں سے لڑا جاسکے۔
ابھی سپر کمپیوٹرز کی مدد سے بننے والی اینٹی بایوٹک کے تجربات چل رہے ہیں کہ یہ اینٹی بایوٹک ڈبلیو ایچ او کی ‘ضروری دوائیوں‘ کی فہرست میں موجود دوائیوں سے 56 گنا زیادہ کارآمد ہے۔
پارکر سولر پروب کی نئی دریافتیں
—فوٹو: ناسا
سال 2018ء میں ناسا کی جانب سے سورج کی طرف بھیجے گئے خلائی مشن میں پارکر سولر پروب نامی خلائی گاڑی موجود تھی جس کا مقصد 2023ء تک ہمارے سورج کے نہایت قریب جان کر معلومات اکٹھی کرنا ہے۔
یہ خلائی گاڑی انسان کی بنائی ہوئی پہلی مشین ہے جو کسی ‘ستارے‘ کا اتنے قریب سے مشاہدہ کررہی ہے۔
بہت سی شمسی سیٹیلائٹس ہونے کے باوجود اس مشن کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ سائنسدان جو معلومات سورج سے کروڑوں کلومیٹر دور سے حاصل نہیں کرسکتے وہ معلومات یہ خلائی گاڑی بھیجے گی، سال 2019ء میں پارکر سولر پروب جیسے جیسے سورج کے قریب جارہا تھا تو سورج سے آنے والی شمسی ہواؤں میں اس پر لگے مقناطیسی سینسر نے اپنے ماحول میں مقناطیسی میدان دیکھے تو اس میں اتار چڑھاؤ دیکھا۔
سائنسدانوں کو شمسی ہواؤں کے بارے میں تو معلوم تھا لیکن اس طرح کے ‘زگ زیگ‘ اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ زمین سے کبھی نہیں کیا تھا، سائنسدانوں نے مقناطیسی میدانوں کے اس بدلاؤ کو ‘سوئچ بیکس‘ کا نام دیا مگر سائنسدانوں کو یہ جاننے میں دلچسپی ہوئی کہ یہ سوئچ بیکس بنتے کہاں ہیں؟
اس بات کا جواب انہیں اس وقت ملا جب پارکر سولر پروب سورج کے مزید قریب پہنچا اور خلائی گاڑی نے دیکھا کہ یہ سوئچ بیکس اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب سورج کی سطح کے نیچے ‘کنوکشن‘ کے عمل کی وجہ سے مادہ اور مقناطیسی میدان تیزی سے باہر نکلتے ہیں۔
واضح رہے کہ طبیعات کی اصلاح میں کنوکشن کا عمل مائع حالت میں موجود مادے، گیس یا پلازما میں اس وقت ہوتا ہے جب مادے کا ٹھنڈا حصہ اپنی زیادہ کثافت کی وجہ سے گرم حصے کی جگہ لے لے۔
ہمارا سورج پلازما سے بنا ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ سوئچ بیکس اس جگہ سے نکلتے ہیں جہاں موجود نسبتاً ٹھنڈا پلازما نیچے بیٹھ جائے اور گرم پلازما سورج کی سطح پر آجائے۔
جیمز ویب دوربین کائنات کی کھوج کے لیے رواں
جیمز ویب کو 25 دسمبر کو بھیجا گیا—فوٹو: ناسا
سال کے آخر میں یعنی 25 دسمبر 2021 کو ناسا نے 10 ارب ڈالر کی مالیت کی دنیا کی سب سے بڑی دوربین خلا میں بھیجی، یہ دوربین نہ صرف ہبل خلائی دوربین سے حجم میں بڑی ہے بلکہ یہ ہبل کی طرح زمین کے گرد نہیں بلکہ یوں کہیں کہ زمین اور سورج کے مداری نظام کے گرد چکر لگائے گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنسدان اس دوربین کو خلا میں اس مقام پر تنہا کیوں بھیجنا چاہتے ہیں؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دوربین ہبل دوربین کی طرح عام روشنی میں مشاہدہ نہیں کرے گی بلکہ انفراریڈ روشنی میں مشاہدات کرے گی اور اسی وجہ سے اسے زمین سے دور رکھا گیا ہے کیونکہ زمین اور اس پر موجود جاندار گرمی خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے انفراریڈ روشنی میں ہونے والے مشاہدات میں خلل آسکتا ہے۔
اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہبل دوربین زمین کے گرد چکر لگاتی ہے جس کی وجہ سے کبھی دن اور کبھی رات میں سفر کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دوربین کسی بھی کہکشاں یا ستارے کا مشاہدہ لگاتار 24 گھنٹے تک نہیں کرسکتی، اسی وجہ سے جیمز ویب کو زمین سے دور رکھا گیا ہے تاکہ بنا کسی مداخلت کے مشاہدات کیے جاسکیں۔
ایک اور سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ دوربین انفراریڈ میں ہی کیوں دیکھے گی؟ عام روشنی میں کیوں نہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں ہر جگہ کائناتی مٹی موجود ہے جو عام روشنی کو جذب کرلیتی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ روشنی کو ہم تک پہنچنے سے روک دیتی ہے جس کی وجہ سے دوسری طرف دیکھنا ممکن نہیں لیکن اس کے برعکس یہ کائناتی مٹی انفراریڈ روشنی کو نہیں روکتی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم انفراریڈ کی مدد سے ان کائناتی مٹی کے بادلوں سے آگے کی کائنات میں جھانک سکتے ہیں۔
جیمز ویب دوربین جس مقام پر بھیجی جارہی ہے اسے ‘لگرانجین پائنٹ 2‘ کہا جاتا ہے، طبیعات میں لگرانجین پائنٹس کسی بھی مداری نظام میں موجود وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں دونوں اجسام کی کشش ثقل نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔
زمین اور سورج کے مداری نظام میں 5 لگرانجین پائنٹس ہیں، لگرانجین پائنٹ 2 پر جیمز ویب دوربین کو ہلانے کی ضرورت نہیں ہوگی اور یوں یہ دوربین کسی بھی کائناتی جسم کا بغور جائزہ کرسکے گا۔
یہ بلاگ ٢٩ دسمبر ٢٠٢١ کو ڈان نیوز پر مصنف کی طرف سے شایع کیا جاچکا ہے۔