لاکھوں نوری سال دور ستاروں کا فاصلہ کیسے معلوم کیا جاتا ہے؟

لاکھوں نوری سال دور ستاروں کا فاصلہ کیسے معلوم کیا جاتا ہے؟
Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest

ویسے تو سوشل میڈیا پر بہت سے ساتھ سوالات کرتے رہتے ہیں جن کے جوابات دینے کا دل تو کرتا ہے لیکن جواب لکھنے کا وقت نہیں ہوتا اس لئے ایسے سولات کی تلاش میں رہتا ہوں جنہیں جامع جوابات درکار ہوں۔

حال ہی میں امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے بھجی جانے والی دنیا کی سب سے طاقتور دوربین جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ نے آسمان کے انتہائی چھوٹے حصے کی تصویر بھیجی ہے جس میں سینکڑوں کہکشائیں موجود ہیں۔

ان کے بارے میں فلکیاتی لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ تمام ہم سے 13 ارب نوری سال سے زائد کے فاصلے پر موجود ہیں لیکن کائنات کے بارے میں متجسس ہمارے لوگوں کی جانب سے سوال آیا کہ:

 منیب بھائی! یہ بتائیں کہ لاکھوں نوری سال دور فلکی اجسام کا سائز کیسے معلوم کیا جاتا ہے؟  زمین اور ستارے کے درمیان کے فاصلہ کی پیمائش کا کیا طریقہ کار ہے؟

اس سوال کو ہم حصوں میں تقسیم کرلیتے ہیں تاکہ ہر حصے کا تفصیلی جائزہ لیا جائے اور سمجھا جائے:

نوری سال کیا ہوتا ہے؟

نوری سال

نوری سال۔۔۔ پڑھنے میں یہ لفظ ہمیں ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے یہ وقت کا پیمانہ ہو لیکن درحقیقت، نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال کے عرصے میں طے کرتی ہے۔

کلومیٹر کی بجائے نوری سالوں میں کائنات میں فاصلے اس لئے ماپے جاتے ہیں کیونکہ کائنات اتنی بری ہے کہ اگر کلومیٹر میں فصلوں کے حسابات کئے جاتے تو ہمارے کیلکولیٹرز جواب دینے سے قاصر ہوجاتے۔ یاد رہے ایک نوری سال ١٠ کھرب کلومیٹر کے برابر ہے۔

فلکی اجسام کا حجم کیسے ماپا جاتا ہے؟

اب یہ بات تو یقینی ہے کہ کسی انسان تمام تاریخ میں زمین سے صرف چاند تک ہی گیا ہے اس سے دور خلا میں انسان کی رسائی ابھی ممکن نہیں لیکن خوش قسمتی یہ ہے کہ انسان نے اپنی عقل لگا کر زمین سے دور دراز فلکی اجسام کے حجم کو ماپنے کا طریقہ ہزاروں سال قبل آسان سائنس اور ریاضی کی مدد سے ایجاد کرلیا تھا۔

ریڈار رینجنگ

زمین سے قریب موجود اجسام، یعنی جن کا فاصلہ زمین سے 15 کروڑ کلومیٹر تک ہو، کے لئے ریڈار رنجنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

جیسے چاند پر ریفلکٹور موجود ہیں تو زمین سے لیزر کے ذریعے چاند تک کا فاصلہ ماپا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مریخ، زہرہ، عطارد اور سورج تک کا فاصلہ اسی طرح معلوم کیا گیا ہے۔

ریڈار رینجنگ میتھڈ جہازوں کو بھی ہوا میں تلاش کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

پرالاکس میتھڈ

ریڈار رینجنگ میتھڈ کافی مفید ہے لیکن یہ طریقہ سینکڑوں نوری سال دور ستاروں کے لئے استعمال نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے ہم ریاضی کی اس ٹریگنومیٹری کو استعمال کرتے ہیں جو ہمیں میٹرک میں پڑھائی گئی تھی۔

آپ نے اگر کبھی اپنی انگلی کو دور کسی عمارت کی سیدھ میں کرکے ایک آنکھ سے دیکھا ہو تو ہوسکتا ہے وہ عمارت آپ کو انگلی کے پیچھے چھپی دکھائی دے لیکن اگر بنا انگلی ہلائے دوسری آنکھ سے دیکھیں تو آپ کو انگلی اسی سیدھ میں نہیں دکھائی دے گی جس سیدھ میں تھی۔ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

اس کی وجہ یہی ہے کہ آپ کی دونوں آنکھیں دو مختلف جگہوں سے انگلی کو دیکھ رہی ہیں جس کی وجہ سے انگلی کے پیچھے نظر آنے والی عمارت ایک جگہ پر نہیں۔ اس کو پرالاکس کہا جاتا ہے۔ اسی طریقے کو ستاروں تک کا فاصلہ ماپنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جسے ہم پرالاکس میتھڈ کہتے ہیں۔

اوپر دی گئی مثال سے یہ بات تو واضع ہوگئی کہ پرالاکس (یعنی پس منظر میں موجود عمارت کا بظاھر ہلنا) موجود تھا لیکن آپ نے یہ محسوس کیا ہوگا کہ عمارت ذرا سی ہلی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی دونوں آنکھوں کے بیچ فاصلہ بہت تھوڑا ہے۔

تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم یہی طریقہ کائنات میں استعمال کرتے ہے انگلی کی جگہ پر اس ستارے کو رکھیں جس کا زمین سے فاصلہ ماپنا ہے، پس منظر میں دور دراز ستارے رکھیں اور دونوں آنکھوں کی جگہ پر زمینی مدار کے دونوں سرے رکھیں تو دونوں آنکھوں کے بیچ کا فاصلہ ادھر زمینی مدار کے قطر کے برابر ہوگا۔

اب اسی ستارے کو اگر جنوری میں دیکھیں گے تو اس کے پس منظر میں دور دراز ستاروں کا منظر چھ مہینے بعد یعنی جولائی میں موجود منظر سے تھوڑا مختلف ہوگا، یعنی ستاروں میں پرالاکس موجود ہوگا!

ہم جانتے ہیں کہ آسمان کا چکر ٣٦٠ ڈگری میں مکمل ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم ستاروں کے ان دونوں مناظر کا موازنہ کرکے یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ ستارے جنوری سے جولائی تک کتنے ڈگری یا ڈگری کا کچھ حصہ ہلے۔ اس زاویے کو پرالاکس کا زاویہ کہتے ہیں۔

Parallax Method in Astronomy

ہمیں ستارے تک کا فاصلہ نکالنے کے لئے صرف دو چیزیں درکار ہوتی ہے: پہلا زمین سے سورج تک کا فاصلہ اور دوسرا پرالکس کا زاویہ۔ دونوں ہی موجود ہیں۔ ہم ریاضی کا قانون استعمال کرینگے:

tan (پرالاکس کا زاویہ) = perpendicular (زاویے کے سامنے والا فاصلہ یعنی زمین سے سورج تک کا فاصلہ)/base (سورج سے ستارے تک فاصلہ)

چونکہ ہمیں ستارے ت فاصلہ چاہیے اس لئے ہم اس مساوات کو دوبارہ ترتیب دیں گے:

سورج سے ستارے تک فاصلہ = زمین سے سورج تک کا فاصلہ/tan (پرالاکس کا زاویہ)

چونکہ پرالاکس کا زاویے انتہائی چھوٹا ہوتا ہے اس لئے ریاضی کے قانون کے مطابق اگر کسی بھی بہت چھوٹے نمبر کا tan() کیا جائے تو اس کا جواب تقریبا وہی وہی آجاتا ہے۔ اس لئے میں یہاں tan() کی جگہ پر صرف زاویے کا نمبر لکھونگا:

سورج سے ستارے تک فاصلہ = زمین سے سورج تک کا فاصلہ/پرالاکس کا زاویہ

پرالاکس کے اس طریقے سے صرف کچھ سو نوری سال دور تک ہی ستاروں کا فاصلہ ماپا جاسکتا ہے کیونکہ زمین سے کم از کم پرالاکس کا زاویہ جو ماپتا جاسکتا ہے وہ 0.01 آرک سیکنڈ ہے۔ آرک سیکنڈ ڈگری کا 3600 واں حصہ ہوتا ہے۔

اب اس سے دور کے ستاروں کو ماپنے کے لئے دوسرے طریقوں کا استعمال کرنا پڑے گا کیونکہ اس سے دور کے ستاروں کا فاصلہ اس طریقے سے ماپا تو جاسکتا ہے لیکن عدد میں اتنی درستگی نہیں رہے گی۔

مین سیکوینس فٹنگ

اسی طرح ہزاروں نوری سال دور ستاروں کے لئے ہم “مین سیکوینس فٹنگ” کے طریقے کا استعمال کرتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ جب بارش ہونے کے بعد سورج کی روشنی ہوا میں موجود پانی کے قطروں سے گزرتی ہے تو قوس قضا دکھائی دیتی ہے جو کہ بہت خوبصورت نظارہ ہوتا ہے۔

جب سفید روشنی ان سات رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے تو اسے اس روشنی کا سپیکٹرم کہتے ہیں۔ ہمارے سورج کی روشنی کی طرح ہر ستارے کی روشنی کا اپنا سپیکٹرم ہوتا ہے۔

کائنات میں ہر طرح کے ستارے موجود ہیں۔ کچھ ہمارے سورج جتنے ہیں تو کچھ ہمرے سورج سے لاکھوں گناہ بارے ہیں جبکہ کچھ ہماری زمین کے برابر کے بھی ہیں۔

ان سب ستاروں کے سپیکٹرم اور ان سے آنے والی روشنی کی شدت کے استعمال سے سائنس دانوں نے ان ستاروں کو گروپوں (سیکوینس) میں تقسیم کیا ہے تاکہ انھیں معلوم ہوسکے کہ کونسا ستارہ کونسے سیکوینس سے ہے۔ اس ٹیبل کو HR diagram کہتے ہیں۔

HR diagram

مین سیکوینس فٹنگ میں فلکیات دان یہ کرتے ہیں کہ اگر کسی نامعلوم ستارے سے روشنی آرہی ہو تو اس کا سپیکٹرم لیتے ہیں اور اس سے آنے والی روشنی کی شدت معلوم کرتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ستارے کی روشنی تیز یا مدھم ہوسکتی ہے لیکن اگر تو دو ستارے ایک ہی سیکوینس کے ہیں تو ان کا سپیکٹرم ملتا جلتا ہوگا۔

ستارے کی روشنی کی شدت اور سپیکٹرم موصول ہونے کے بعد سائنسدان تمام معلوم ستاروں میں اس ستارے کے سیکوینس کا موازنہ کرتے ہیں۔ جیسے ہی یہ معلوم ہوجائے کہ نامعلوم ستارہ کونسے سیکوینس کا ہے تو اسے اپنے سیکوینس کے باقی ستاروں سے آنے والی روشنی کی شدت سے دیکھا جاتا ہے اور حساب لگایا جاتا کہ اگر تو نامعلوم ستارہ اپنے جیسے باقی ستاروں سے مدھم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ستارہہمارے معلوم ستارے سے اتنے فیصد دور ہے۔ اور یوں فاصلہ معلوم کرلیا جاتا ہے۔

یوں سمجھیں کہ آپ کے پاس دو 100 واٹ کا بلب ہیں۔ ایک بلب کو آپکے دوست نے 10 کلومیٹر دور جلایا ہوا جبکہ دوسرے نے بلب 5 کلومیٹر دور رکھا ہوا۔ اب آپ کو ایک بلب دوسرے سے زیادہ روشن دکھائی دے گا لیکن آپ یہ جان چکے ہیں کہ دونوں بلب ایک ہی طرح کے ہیں۔ یوں آپ نیچے دیے گئے فارمولا سے قریب بلب کے مقابلے میں دور والے کا فاصلہ معلوم کرسکتے ہیں:

ستارے کی اصل شدت – ستارے کی ظاہری شدت = 5 log (نامعلوم ستارے کا فاصلہ) – 5  

معیاری موم بتیاں – سیفیڈ ستارے

cepheid variable

پھر آتے ہیں ایک خاص طرح کے ستارے جنہیں ہم سیفیڈ ستارے کہتے ہیں۔ اس میں بھی ہم ستارے کی اصل اور تجرباتی شدت کا موازنہ کرکے فاصلہ معلوم کیا جاتا ہے، یعنی اگر دور کوئی ستارہ سیفیڈ ہے اور اسکی شدت عام سیفیڈ کے مقابلے میں کم ہے تو اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سترہ قدرے دور ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سیفیڈ ستارے کیا ہیں؟

سیفیڈ ستاروں کو معیاری موم بتیاں بھی کہا جاتا ہے

یہ خاص طرح کے ستارے ہیں جو ایک مخصوس فریکوئنسی سے ٹمٹماتے ہیں (سائنسدانوں نے انڈرومیڈہ کہکشاں میں موجود انہی ستاروں کی مدد سے فاصلہ معلوم کیا ہے)۔

ٹولی فیشر ریلیشن

Tully Fisher Relation

اب آتے ہیں وہ اجسام جو کروڑوں نوری سال دور ہیں۔ ان اجسام میں کہکشائیں شامل ہے۔ ان تک کا فاصلہ ماپنے کے لئے ہم ریاضی کے اصولوں اور فزکس کے قوانین کا سہارا لیتے ہیں۔

اس میں ٹولی فیشر ریلیشن شامل ہے جس میں ہم سپایرل کہکشاؤں کی روشنی اور گھومنے کی رفتار ماپتے ہیں اور پھر مساوات کے ذریعے ان تک کا فاصلہ ماپ لیتے ہیں۔ یوں کہہ لیجئے کہ ادھر بھی روشنی کی شدت کے موازنے کو ہی بنیاد بنایا گیا ہے۔

ٹائپ 1 اے سپرنووا

Type 1a SN

آخر میں اربوں نوری سال کا فاصلہ ماپنے کے لئے ہم وائٹ دوارف سپر نوا، جنہیں ٹائپ 1 اے سپرنووا بھی کہا جاتا ہے، کا استعمال کرتے ہیں۔

سپرنووا دو ستاروں میں ہوتا ہے جس میں ایک ستارہ اپنی آخر عمر میں ہوتا ہے جبکہ اسکا ساتھ وائٹ دوارف ہوتا ہے۔ بوڑھے ستارے کا مادہ سفید بونے ستارے کی کشش سے کھچا چلا جاتا ہے اور جب اس سفید بونا ستارے پر 1.4 سورج کے مادے کے برابر مادہ (اسے چندرا شیکھر لمٹ کہا جاتا ہے) جما ہوجاتا ہے تو یہ ستارہ زور دار دھماکے کی شکل میں پھٹتا ہے اور اسے ٹائپ 1 اے سپرنووا کہتے ہیں۔

تقریبا تمام سپرنووا کی روشنی بہت تیز اور ایک جتنی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ہم اصل اور تجرباتی روشنیوں کا موازنہ کرکے اربوں نوری سال کا فاصلہ معلوم کرسکتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اسی ٹائپ 1 اے سپرنووا کی مدد سے ہم نے کائنات کے پھیلنے کی رفتار ماپی اور بتایا کہ کائنات کے پھیلنے کی رفتار وقت کے ساتھ ساتھ کم نہیں بلکہ زیادہ ہورہی ہے (اسی سے ڈارک انرجی کا کانسپٹ دیا گیا)۔

یہ بھی پڑھیں

all about dark energy

یہ بات ١٩٩٨ء میں پروفیسر ڈاکٹر آدم ریس، ڈاکٹر برائن شمٹ (جو اب آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ہیں) اور انکے ساتھ نے دنیا کو بتائی اور اسی پر ٢٠١١ میں انہیں نوبل انعام بھی دیا گیا۔

پوسٹ کوآگے پھیلائیں