‘Ek Hai Nigar’ and Two Nation Theory

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest

اے آر وائی پر ٢٣ ستمبر ٢٠٢١ بروز ہفتہ ٹیلی فلم “ایک ہے نگار” نشر ہوئی۔ ٹیلی فلم میں پاکستان کی پہلی لفٹننٹ جنرل نگار جوہر کا کردار اداکارہ ماہرہ خان ادا کررہی ہیں۔

یہ ٹیلی فلم سوشل میڈیا پر عوام کی توجہ کا مرکز اس وقت بنی جب کسی صارف نے اپنے ٹویٹ میں فلم کا سکرین شاٹ لگایا جہاں ماہرہ خان یہ ڈائلاگ بول رہی ہیں کہ:

“ہم ‘عام ڈاکٹرز’ نہیں ہیں۔ ہم ‘وردی’ میں ملبوس ڈاکٹرز ہیں۔ ہم سے عوام کی توقعات زیادہ ہیں”

اور ساتھ ہی صرف نے پاک امارات ملٹری ہسپتال کے باہر لگے نوٹس کی تصویر میں لگائی جس میں لکھا تھا کہ ہسپتال میں سول مریض نہیں دیکھے جائیں گے اس لئے کسی سرکاری ہسپتال کا رخ کریں۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر عوام میں “سول اور ملٹری” ڈاکٹروں کی اہمیت کو لے کر بحث چھڑ گئی جس میں بہت سے نوجوان جن کے والدین کا تعلق پاکستان آرمی سے تھا یا ہے، نظر آئے اور انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ آرمی افسر کے گھر سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انھیں سی ایم ایچ میں لمبی لائنوں میں نہیں لگنا پڑتا تھا اور انھیں اسی وجہ سے دوسروں سے افضل سمجھا جاتا رہا۔

“ایک ہے نگار” اور دو قومی نظریہ

پاکستان میں آج بھی مطالعہ پاکستان کی کتب میں دو قومی نظریہ پڑھایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سر سید احمد خان کے اس نظریے کو قائد اعظم محمّد علی جناح نے اسی کی بنیاد پر قیام پاکستان کی تحریک چلی اور ہمارا ملک پاکستان ١٩٤٧ء میں وجود میں آیا۔ یہ حقیقی ہے لیکن جناح کے فوت ہوجانے کے بعد پاکستان تو کیا یہ دو قومی نظریہ بھی ریزہ ریزہ ہوگیا۔
١٩٧١ء میں مشرقی پاکستان جب “پاکستان” میں دو قومی و سیاسی نظریات کی بنا پر بنگلہ دیش بنا تو سر سید احمد خان کا یہ نظریہ تو تب ہی ختم ہوگیا تھا۔ کیونکہ اس کے مطابق تو برصغیر میں مسلمان اکثریت علاقوں کو الگ ملک (پاکستان) کی ضرورت تھی کیونکہ ان سب علاقوں میں ایک ہی سوچ کے لوگ بستے تھے لیکن ١٩٧١ء میں انہی سوچوں میں فرق آجانے سے ملک ٹوٹ کر الگ ہوگیا۔ اور آپ ہم دیکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش مغربی پاکستان (جسے ہم پاکستان کہا جاتا ہے) سے کتنا آگے نکل چکا کہ “ایک بنگلادیشی تکّا” دو روپیوں کے برابر ہے۔ یوں سر سید احمد خان کے پہلے دو قومی نظریے کے بعد ١٩٧١ میں دوسرا “دو قومی نظریہ” سامنے آیا جس میں مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش مغربی پاکستان یعنی موجود پاکستان سے الگ ہے۔
اگر اس ٹیلی فلم کی بات کی جائے تو اس میں بھی لوگوں کے بقول یہی تاثر دیا گیا ہے کہ “فوجی ڈاکٹر” خاص اور “سویلین ڈاکٹر” عام ہوتے ہیں جس کی جڑیں اسی “دو قومی نظریے” سے جا کر ملتی ہے جو سر سید احمد خان اور ١٩٧١ء کے وقت کے بعد تیسری دفعہ بنا جس میں عوام کے اذہان میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی گئی کہ سول حکومت ہو یا سول سیکورٹی فورسز، جس میں پولیس شامل ہے، سب کے سب ملٹری حکومت (یعنی مارشل لاء کی حکومت) اور ملٹری سیکورٹی فورسز سے کم اہمیت کی حامل ہیں۔

میری خیال/رائے

اس سب میں صرف اتنی بات کہوں گا کہ بارڈر پر اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر کھڑا سپاہی ہو یا کسی ناکے پر کھڑا پولیس اہلکار دونوں میری نظر میں برابر عزت و اہمیت کے حقدار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ہی اپنے ملک اور اس کی عوام کی حفاظت کے لئے کھڑے ہیں اور دونوں نے حلف اٹھایا ہے کہ اس ملک کی عزت اور بقا کے لئے لڑ جائیں گے۔ اسی طرح ڈاکٹر وردی میں ہو یا لیب کوٹ میں، دونوں سے عوام کی توقعات تو ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ان دونوں میں سے نہ تو کوئی وردی کی وجہ سے زیادہ اہم ہوسکتا ہے اور نہ ہی کوئی لیب کوٹ کی وجہ سے عام۔ اسی طرح استاد بیشک سرکاری یونیورسٹی کا ہو یا نجی، اس سے اس کی عزت میں کوئی فرق نہیں آنا چاہیے۔

اس ذہنیت کی وجہ سے  ہندو اور مسلمان پاکستان کے وجود سے پہلے بھی ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوششوں میں لگے تھے اور انگریز دونوں کی سرزمین پر حکمران ہوگئے اور دونوں کو غلامی جھیلنا پڑی۔ اب بھی ہم اسی ذہنیت کا شکار ہیں کہ عسکری بہتر ہے یا سول۔۔۔ یہ لمحہ فکریہ ہے اور اس سے نقصان سول یا عسکری کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہوگا۔

پوسٹ کوآگے پھیلائیں