کیا آپ جانتے ہیں ستارے اور سیارے کیسے بنے؟

how solar system was formed
Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest

دن میں آفتاب اور رات میں مہتاب اپنے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں اور اگر آپ کو مہینے کی کچھ راتیں ایسی مل جائیں کہ جب چاند ابھی رونما نہ ہوا ہو تب آپ کو ستاروں سے بھرا آسمان نظر آتا ہے۔ اس بات پر اکثر آپ نے غور کیا ہوگا کہ آسمان میں کچھ ستارے ایسے دکھائی دیتے ہیں جو باقیوں سے زیادہ چمک رہے ہوتے ہیں۔ وہ کیا ہوتے ہیں؟ وہ اصل میں سیارے ہیں جو ہمارے سورج کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔ ستارے آسمان میں ٹمٹماتے ہیں تو سیارے ایسے نظر آتے ہیں جیسے دور آسمان میں کوئی بلب رکھا ہو۔

ہم سب اپنے نظام شمسی کے سیاروں کی خصوصیات بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ نظام شمسی کے کل آٹھ سیاروں میں سے پہلے چار سیارے پتھریلے ہیں اور باقی کے چار سیارے ’گیسی ( مائع) دیو‘ ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسی کون سی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے یہ فرق آیا؟ آئیے جانتے ہیں۔

آج ہم کسی بھی سائنسدان سے یہ سوال کریں کہ ’بگ بینگ کیا ہے؟‘ تو وہ یہ کہے گا کہ یہ وہ زوردار دھماکہ ہے جس کے نتیجے میں ہماری یہ کائنات بنی اور اگر ہم پھر سے پوچھیں کہ ’اس بگ بینگ کے بعد کیا ہوا؟‘ تو یہ جواب سننے کو ملے گا کہ اس کے بعد تمام مادے نے ہائیڈروجن اور ہیلیم کے بڑے بڑے بادلوں کی شکل اختیار کرلی اور ہماری کائنات پھیلنا شروع ہوئی۔

نظام شمسی کے اندرونی سیارے پتھریلے اور بیرونی سیارے مائع حالت میں کیوں ہیں؟

ہمارے اس سوال کا جواب اسی جواب میں ہی کہیں مخفی ہے لیکن وہ جواب ہے کیا؟ چلئیے میں آپ کو بتاتا ہوں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کائنات میں موجود ہر شے چاہے وہ ستارے ہوں یا سیارے یا پھر چاند یا شہاب ثاقب ہی کیوں نہ ہوں، سب میں ہائیڈروجن، ہیلیم اور اس کے ساتھ ساتھ کاربن کی سب سے زیادہ مقدار پائی جاتی ہے۔ یہ تمام اجسام جن کا میں نے نام لیا وہ کس طرح وجود میں آئے؟ یقیناً ان گیس کے بادلوں کے سکڑنے کی وجہ سے بنے ہوں گے۔

یہاں ایک سوال جو ہم میں سے اکثر لوگوں کے ذہن میں آئے گا وہ یہ کہ بادل سکڑنا کیوں شروع ہوئے؟ تو اس کا نہایت آسان اور عام فہم جواب ’’کششِ ثقل‘‘ ہے۔ ان بادلوں میں موجود ہائیڈروجن، ہیلیم اور ان کے علاوہ دوسرے عناصر کے ایٹموں کی درمیانی کشش کی وجہ سے ہی یہ بادل سکڑنا شروع ہوئے۔

اگر تمام سیارے، چاند، سیارچے ایک ہی بدل سے وجود میں آئے ہیں تو پھر ہمارے نظام شمسی میں صرف سورج ہی کیوں روشنی خارج کرنا ہے؟

اب دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تمام کے تمام ایک جیسے بادلوں سے ہی بنے ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ستارے روشنی خارج کرتے ہیں اور سیارے، چاند اور شہاب ثاقب نہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ سیارے ستاروں کے اور چاند سیاروں کے گرد گھومتے ہے اور ان سب کی اس ترتیب سے الٹ ترتیب کیوں نہیں؟ کوئی تو وجہ ہے۔

وہ وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے یہ بادل سکڑتے گئے‘ ویسے ویسے ان کا حجم چھوٹا ہوتا گیا اور ان میں جہاں جہاں ہائیڈروجن اور ہیلیم کی مقدار بہت زیادہ تھی، وہاں ایسے اجسام بنے جن میں ان دونوں کی مقدار آج ہمیں سب سے زیادہ نظر آتی ہے۔ جی ہاں!! میں’ستاروں‘ کی بات کر رہا ہوں۔ ہمیں اپنے سورج (جو کہ ایک ستارہ ہے) میں یہ دلائل ملتے ہیں کہ یہ دونوں عناصر واضح مقدار میں پائے جاتے ہیں۔

اور ساتھ ہی حیران کن بات یہ کہ سائنسدانوں نے ’ہیلیم‘ کو سورج سے آنے والی روشنی میں سب سے پہلے دریافت کیا تھا اور اس کے بعد زمین پر اس عنصر کو دریافت کرلیا گیا تھا۔

تو ان بادلوں میں ہائیڈروجن اور ہیلیم کی زیادہ مقدار والے حصّے میں تو ستارے بن گئے لیکن کیا سیارے بھی اسی طرح وجود میں آئے؟ جی ہاں، ان بادلوں میں زیادہ مقدار حصّے کے ارد گرد جو حصّہ موجود تھا، جن میں ان دونوں عناصر کی مقدار ستاروں کی نسبت قدرِ کم تھی،وہ بھی آہستہ آہستہ سکڑنا شروع ہوا اور اس طرح سیارے وجود میں آئے۔

پر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے نظام شمسی کے کچھ سیارے پتھریلے اور کچھ گیس کے بنے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ستاروں کے گرد جو ہائیڈروجن اور ہیلیم کی مقدار موجود تھی وہ اتنی تو نہ تھی کہ دوسرا ستارہ بن جاتا اس لئے ان سے بننے والے اجسام سیارے بنے۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہ ستارے سے قریب حصّے میں ان دونوں عناصر کی مقدار زیادہ اور جیسے جیسے ستارے سے دور جائیں تو ان کی مقدار بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔

مقدار زیادہ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان سیاروں کی کثافت بھی زیادہ ہوگی۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ٹھوس چیزوں کی کثافت ہوا میں حل ہونے والی گیسوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اور اسی لئے ستارے سے دور بننے والے سیاروں میں ہائیڈروجن اور ہیلیم جیسے عناصر کی مقدار کم ہونے کے باعث ان تمام کی کثافت بھی کم ہوگی جس کی وجہ سے وہ پتھر کی طرح ٹھوس نہیں بلکہ گیس کے بنے ہوں گے۔ تو یہ چیز آپ اپنے نظام شمسی میں بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ اندرونی چار سیارے، جن میں عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ شامل ہیں، ٹھوس اور پتھریلے ہیں جبکہ بیرونی چار سیارے، جن میں مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون شامل ہیں وہ مائع حالت میں ہیں۔

ایک حیرت انگیز بات بتانا چلوں کہ سیارہ زحل (جو کہ گیس کا بنا ہوا ہے) کو اس کے حجم کے برابر کسی سمندر میں ڈال دیں تو اس کی کثافت اس قدر کم ہے کہ وہ اس پانی پر تیرنے لگے گا۔

اس پورے آرٹیکل کا حاصل آپ کو اس بات سے باور کرانا تھا کہ آخر کسی ستارے کے گرد چکر کاٹتے سیاروں کا پتھریلا یا مائع ہونے کے پیچھے آخر وجہ سے کیا ہے ‘ امید ہے کہ صورتحال آپ کو واضح ہوگئی ہوگی۔

یہ مضمون٢٠١٧ میں اے آر وائی کی ویب سائٹ پر شایع ہوا تھا۔

اسی ٹوپک پر سید منیب علی کا لائیو سیشن ملاحظہ کریں:

پوسٹ کوآگے پھیلائیں